کیا آئن سٹائن خدا پر یقین رکھتے تھے؟
آئن سٹائن کے اپنے ہاتھ کا وہ خط غیر متوقع طور پر 29 لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا ہے جس میں انھوں نے خدا کے وجود کے بارے میں بات کی ہے۔
یہ خط آئن سٹائن نے 1954 میں جرمن زبان میں لکھا تھا اور توقع تھی کہ یہ زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ ڈالر میں بکے گا لیکن نیویارک میں ہونے والی اس نیلامی نے ساری توقعات توڑ دیں۔
اس خط میں آئن سٹائن نے مذہب اور سائنس کے درمیان ہونے والی پرانی بحث پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
آئن سٹائن کو انسانی تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور انھوں نے کئی بار خدا کے وجود کے بارے میں بحث کی ہے۔
آئن سٹائن جرمن فلسفی ایرک گٹ کائنڈ کے نام اس خط میں لکھتے ہیں: 'لفظ خدا میرے لیے انسانی کمزوری کے اظہار اور پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ بائبل قابلِ قدر مگر دقیانوسی اساطیر کا مجموعہ ہے۔۔۔ کوئی تفسیر، چاہے وہ کتنی ہی باریک کیوں نہ ہو، اس بارے میں میرے خیالات بدل نہیں سکتی۔'
اس خط سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ آئن سٹائن ایک موقعے پر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ دہریے نہیں ہیں۔ ان کا یہ قول مشہور ہے کہ ’میں سپی نوزا کے خدا پر یقین رکھتا ہوں جو اپنے آپ کو تمام اشیا میں ظاہر کرتا ہے جو وجود رکھتی ہیں، لیکن اس پر خدا پر یقین نہیں رکھتا جو انسان کی تقدیر اور اعمال کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔‘
سپینوزا 18ویں صدی میں گزرنے والے مشہور ولندیزی فلسفی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ خدا کا کوئی شخصی اور مادی وجود نہیں ہے، بلکہ کائنات خدا کے تخیل اور توسیع کی مظہر ہے۔ کائنات کی ہر شے خدا کی ذات کا حصہ ہے اور اس لحاظ سے ہر شے دوسری شے سے جڑی ہوئی ہے۔
اس تصور کو اصطلاح میں 'ہمہ اوست' کہا جاتا ہے۔
سپینوزا کے اسی تصور کے تحت کائنات میں جو واقعہ بھی ہوتا ہے، وہ خدا سے جڑا ہونے اور خدا کے وجود کا حصہ ہونے کی وجہ سے حتمی اور قطعی ہوتا ہے اور اس کی بجائے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ اس کو نظریۂ جبر کہا جاتا ہے اور جیسے کہ نیچے آئے گا، آئن سٹائن بھی اسی کے قائل تھے۔
زندگی بھر بدلتے خیالات
آئن سٹائن یہودی والدین کے گھر پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے ایک کیتھولک عیسائی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے خود ایک بار لکھا تھا کہ ان کا بچپن مذہبی ماحول میں گزرا لیکن وہ 12 سال کی عمر میں غیر مذہبی ہو گئے تھے۔
'سائنسی کتابیں پڑھنے سے میں جلد ہی اس یقین پہنچ گیا کہ بائبل کی اکثر کہانیاں درست نہیں ہو سکتیں۔'
یہ آئن سٹائن کے لڑکپن کی بغاوت کا مظہر تھا، اور اس کا اثر ان کی زندگی پر خاصے عرصے تک رہا۔ تاہم پکی عمر کو پہنچنے کے بعد آئن سٹائن یہ کہنے لگے تھے کہ وہ ایک شخصی اور ذاتی خدا پر یقین رکھتے ہیں۔
جب ان کی عمر 50 برس تھی تو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا: 'میں دہریہ نہیں ہوں۔ ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہمارے محدود ذہنوں کے مقابلے پر انتہائی عظیم ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے جو ایک وسیع و عریض لائبریری میں داخل ہوتا ہے جو مختلف زبانوں کی کتابوں سے بھری ہوئی ہے۔ بچے کو معلوم ہے کہ کسی نے ضرور یہ کتابیں لکھی ہوں گی، لیکن یہ نہیں پتہ کیسے۔
'اسے وہ زبانیں نہیں آتیں جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بچہ کتابوں کی ترتیب میں ایک پراسرار ترتیب دیکھتا ہے لیکن اسے پتہ نہیں وہ ترتیب کیا ہے۔۔۔ ہم کائنات کو دیکھتے ہیں جو پراسرار طریقے سے ترتیب دی گئی ہے اور وہ بعض قوانین کے تابع ہے، لیکن وہ ان قوانین کو بہت مدھم انداز میں سمجھتا ہے۔'
اگر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آئن سٹائن کے مذہب کے بارے میں خیالات بدلتے رہے ہیں۔ بظاہر مذکورہ خط ان کی زندگی کے ایک ایسے دور سے تعلق رکھتا ہے جب وہ خدا کے وجود کے منکر ہو گئے تھے۔
آئن سٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بعد وہ دوسرے مشہور ترین یہودی ہیں۔ انھیں اسرائیل کا صدر بننے کی پیشکش بھی ہوئی تھی حالانکہ وہ اسرائیل کے شہری نہیں تھے۔ لیکن انھوں نے یہ جواب دے کر انکار کر دیا کہ 'میں ساری زندگی معروضی معاملات کو برتتا چلا آیا ہوں، اس لیے میرے اندر لوگوں کو برتنے کا میلان ہے اور نہ سرکاری امور سرانجام دینے کا تجربہ۔'
اوپر مذکور انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا تھا: 'قومیت ایک بچگانہ بیماری ہے، جیسے انسانیت کا خسرہ۔'
اسی انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں جبریت کا قائل ہوں۔ میں انسان کی خودمختاری پر یقین نہیں رکھتا۔ یہودی سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ میں اس نظریے کو مسترد کرتا ہوں۔ میں اس
لحاظ سے یہودی نہیں ہوں۔
Great Person .................
ReplyDelete