Tuesday, December 11, 2018

قسمت کہاں پڑی ہے!!! چابی اٹھائے پھرتے ہیں!!!


قسمت کہاں پڑی ہے!!!
چابی اٹھائے پھرتے ہیں!!!

یا اللہ تیرا شکر تو نے خیر وعافیت سے نئی صبح عطا فرمائی


یا اللہ تیرا شکر تو نے خیر وعافیت سے نئی صبح عطا فرمائی اے پاک پروردگار ہم سب کے ایمان، جان مال، عزت وآبرو کی حفاظت فرما ۔ ہمیں صحت وعافیت عطاء فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ آمین یا رب العالمین

زندگی دنیا کا واحد پودا ہے جس کا بیج زمین کے اوپر بویا جاتا ہے۔ (اعمال)

زندگی دنیا کا واحد پودا ہے جس کا بیج  زمین کے اوپر بویا جاتا ہے۔ (اعمال)
لیکن اس کا پھل زمین کے نیچے ملتا ہے۔ (قبر)
اللہ پاک ہمیں اپنے پیاروں میں شمار کرلے اور ہمیں اس پودے کی بہترین نشوونما  کرنے والا بنائے جس کے بغیر اگلا جہاں نامکمل ہے۔

Saturday, December 8, 2018

بے شک خوشیوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی! Be Shak Khushion ki koi qeemat nahi hoti


بے شک خوشیوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی!



اے اللہ پاک ، اے رب العالمین بے شک زمین وآسمان میں تیری بادشاہی ہے



اے اللہ پاک ، اے رب العالمین
بے شک زمین وآسمان میں تیری بادشاہی ہے ۔
اپنے حبیب کریمﷺ کے صدقے میں ہماری پریشانیاں دور فرمادے۔
ہمیں آسانیاں عطا فرما۔ہمارے حال پر رحم فرما۔
ہمیں طواف کعبہ اور حجر اسود کا چومنا نصیب فرما۔


Thursday, December 6, 2018

ہم تیرے در پہ صدا دیتے ہوئے آئیں گے نہ ملا طرز فقیری تو دید کا کاسہ ہی سہی


ہم  تیرے در پہ صدا دیتے ہوئے آئیں گے
نہ ملا طرز فقیری تو دید کا کاسہ ہی سہی
Image may contain: one or more people

کسی انسان کی فطرت کو سمجھنا ہو تو اسکا اخلاق دیکھ لیں

کسی انسان کی فطرت کو سمجھنا ہو تو اسکا اخلاق دیکھ لیں اور کسی کی تکلیف جاننا ہو تو اسکی خاموشی کی طوالت دیکھ لیں مگر احتیاط کریں کسی سی موازنہ یہ حقارت آمیزگی نہ رکھیں کہ وہ آپ سے منہ موڑ لے آپ سے۔۔۔

No automatic alt text available.

کیا آئن سٹائن خدا پر یقین رکھتے تھے؟

کیا آئن سٹائن خدا پر یقین رکھتے تھے؟

Logic will get you from A to B. Imagination will take you everywhere. Albert Einstein
آئن سٹائن کے اپنے ہاتھ کا وہ خط غیر متوقع طور پر 29 لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا ہے جس میں انھوں نے خدا کے وجود کے بارے میں بات کی ہے۔
یہ خط آئن سٹائن نے 1954 میں جرمن زبان میں لکھا تھا اور توقع تھی کہ یہ زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ ڈالر میں بکے گا لیکن نیویارک میں ہونے والی اس نیلامی نے ساری توقعات توڑ دیں۔
اس خط میں آئن سٹائن نے مذہب اور سائنس کے درمیان ہونے والی پرانی بحث پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
آئن سٹائن کو انسانی تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور انھوں نے کئی بار خدا کے وجود کے بارے میں بحث کی ہے۔
آئن سٹائن جرمن فلسفی ایرک گٹ کائنڈ کے نام اس خط میں لکھتے ہیں: 'لفظ خدا میرے لیے انسانی کمزوری کے اظہار اور پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ بائبل قابلِ قدر مگر دقیانوسی اساطیر کا مجموعہ ہے۔۔۔ کوئی تفسیر، چاہے وہ کتنی ہی باریک کیوں نہ ہو، اس بارے میں میرے خیالات بدل نہیں سکتی۔'
اس خط سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ آئن سٹائن ایک موقعے پر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ دہریے نہیں ہیں۔ ان کا یہ قول مشہور ہے کہ ’میں سپی نوزا کے خدا پر یقین رکھتا ہوں جو اپنے آپ کو تمام اشیا میں ظاہر کرتا ہے جو وجود رکھتی ہیں، لیکن اس پر خدا پر یقین نہیں رکھتا جو انسان کی تقدیر اور اعمال کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔‘
سپینوزا 18ویں صدی میں گزرنے والے مشہور ولندیزی فلسفی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ خدا کا کوئی شخصی اور مادی وجود نہیں ہے، بلکہ کائنات خدا کے تخیل اور توسیع کی مظہر ہے۔ کائنات کی ہر شے خدا کی ذات کا حصہ ہے اور اس لحاظ سے ہر شے دوسری شے سے جڑی ہوئی ہے۔
اس تصور کو اصطلاح میں 'ہمہ اوست' کہا جاتا ہے۔
سپینوزا کے اسی تصور کے تحت کائنات میں جو واقعہ بھی ہوتا ہے، وہ خدا سے جڑا ہونے اور خدا کے وجود کا حصہ ہونے کی وجہ سے حتمی اور قطعی ہوتا ہے اور اس کی بجائے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ اس کو نظریۂ جبر کہا جاتا ہے اور جیسے کہ نیچے آئے گا، آئن سٹائن بھی اسی کے قائل تھے۔

زندگی بھر بدلتے خیالات

آئن سٹائن یہودی والدین کے گھر پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے ایک کیتھولک عیسائی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے خود ایک بار لکھا تھا کہ ان کا بچپن مذہبی ماحول میں گزرا لیکن وہ 12 سال کی عمر میں غیر مذہبی ہو گئے تھے۔
'سائنسی کتابیں پڑھنے سے میں جلد ہی اس یقین پہنچ گیا کہ بائبل کی اکثر کہانیاں درست نہیں ہو سکتیں۔'
یہ آئن سٹائن کے لڑکپن کی بغاوت کا مظہر تھا، اور اس کا اثر ان کی زندگی پر خاصے عرصے تک رہا۔ تاہم پکی عمر کو پہنچنے کے بعد آئن سٹائن یہ کہنے لگے تھے کہ وہ ایک شخصی اور ذاتی خدا پر یقین رکھتے ہیں۔
جب ان کی عمر 50 برس تھی تو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا: 'میں دہریہ نہیں ہوں۔ ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہمارے محدود ذہنوں کے مقابلے پر انتہائی عظیم ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے جو ایک وسیع و عریض لائبریری میں داخل ہوتا ہے جو مختلف زبانوں کی کتابوں سے بھری ہوئی ہے۔ بچے کو معلوم ہے کہ کسی نے ضرور یہ کتابیں لکھی ہوں گی، لیکن یہ نہیں پتہ کیسے۔
'اسے وہ زبانیں نہیں آتیں جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بچہ کتابوں کی ترتیب میں ایک پراسرار ترتیب دیکھتا ہے لیکن اسے پتہ نہیں وہ ترتیب کیا ہے۔۔۔ ہم کائنات کو دیکھتے ہیں جو پراسرار طریقے سے ترتیب دی گئی ہے اور وہ بعض قوانین کے تابع ہے، لیکن وہ ان قوانین کو بہت مدھم انداز میں سمجھتا ہے۔'
اگر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آئن سٹائن کے مذہب کے بارے میں خیالات بدلتے رہے ہیں۔ بظاہر مذکورہ خط ان کی زندگی کے ایک ایسے دور سے تعلق رکھتا ہے جب وہ خدا کے وجود کے منکر ہو گئے تھے۔
آئن سٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بعد وہ دوسرے مشہور ترین یہودی ہیں۔ انھیں اسرائیل کا صدر بننے کی پیشکش بھی ہوئی تھی حالانکہ وہ اسرائیل کے شہری نہیں تھے۔ لیکن انھوں نے یہ جواب دے کر انکار کر دیا کہ 'میں ساری زندگی معروضی معاملات کو برتتا چلا آیا ہوں، اس لیے میرے اندر لوگوں کو برتنے کا میلان ہے اور نہ سرکاری امور سرانجام دینے کا تجربہ۔'
اوپر مذکور انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا تھا: 'قومیت ایک بچگانہ بیماری ہے، جیسے انسانیت کا خسرہ۔'
اسی انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں جبریت کا قائل ہوں۔ میں انسان کی خودمختاری پر یقین نہیں رکھتا۔ یہودی سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ میں اس نظریے کو مسترد کرتا ہوں۔ میں اس 
لحاظ سے یہودی نہیں ہوں۔

Cabinet approves Rs25.75b grant for zero-rated industries

Cabinet approves Rs25.75b grant for zero-rated industries

PHOTO: REUTERS




ISLAMABAD: 
The federal cabinet approved on Thursday a supplementary grant of Rs25.75 billion for the provision of subsidy to the zero-rated export-oriented industries and captive power plants consuming re-gasified liquefied natural gas (RLNG).
Additionally, the cabinet approved a gas subsidy of Rs5.5 billion to maintain fertiliser prices at current levels. To minimise the price difference between the imported and local liquefied petroleum gas (LPG), the cabinet further reduced general sales tax from 17% to 10%.
It decided that gas supply ratio to the industrial sector – exporters of the zero-rated industries including textile (including jute), carpet, leather, sports and surgical goods – in Punjab would be revised from 28:72 to 50:50 for domestic gas and LNG respectively.
The weighted average gas tariff for such consumers will be $6.5 per million British thermal units (mmbtu).
The cabinet reversed a decision on allocating system gas to the zero-rated industries solely for the production process only. Now, the subsidised gas will be provided to the zero-rated industries both for production process and electricity generation.
Previously, in view of the electricity shortage, a significant gas volume was required by the industrial sector for power generation, however, after assurance of electricity availability in the system, the subsidised gas was not allocated to the captive power plants.
Minister for Petroleum and Natural Resources Ghulam Sarwar said similar to domestic consumers, industrial consumers were also vital for the country’s economy.
Sui Northern Gas Pipelines Limited (SNGPL) would grant a subsidy of $6.5 per mmbtu taking into account actual gas/LNG consumption by the 536 zero-rated industrial consumers (processing and captive plants).
The subsidy calculation has been projected up to June 2019 amounting to Rs25.75 billion.
At present, a sufficient urea stock is available in the country for the Kharif sowing season and the decision has been taken to grant gas subsidy to urea plants for the Rabi season to ensure adequate feritilier supply at current prices and to discourage producers from reaping a windfall by increasing prices.
“Punjab was not self-sufficient in gas production like three provinces,” he said. “The surplus natural gas produced in three provinces is provided to Punjab. There is no other solution than to provide gas/LNG to domestic and commercial consumers of Punjab.”
The matter would be discussed in parliamentary committees and the cabinet, he said. The minister pointed out that Turkmenistan, Afghanistan, Pakistan and India (Tapi) gas pipeline, Iran-Pakistan gas pipeline and LNG from Qatar were the cheapest sources of energy. “Tapi project can be constructed on a fast track and Iran is ready to negotiate the IP pipeline deal,” he said.
The federal government was ready to renegotiate the LNG deal with Qatar if ongoing investigation by the National Accountability Bureau (NAB), Federal Investigating Agency (FIA) and the Supreme Court found some controversial clauses in the agreement, he said.
The minister added that the Petroleum Division was reviewing agreements of rental power plants (RPPs) and the Reko Diq project.
“Prices of domestic LPG cylinders have already dropped from Rs1,850 to Rs1,410 by adjusting taxes on local and imported LPG,” he said. “On the intervention of the Oil and Gas Regulatory Authority (Ogra), the prices of LPG cylinders have further dropped to Rs1,338.”
Responding to a question, the minister said, “It is the responsibility of provincial governments to enforce the LPG cylinder prices determined by the federal government.” The present government has discovered 105.18 mmcfd of gas and 5,358 barrels per day of oil in Sindh and Khyber-Pakhtunkhwa.
It is also working on a proposal to install LPG-air mix plants in Azad Jammu and Kashmir, Gilgit-Baltistan, Balochistan and other areas of the country.

میری سانسیں خریدوگے؟ مجھے کچھ اور جینا ہے۔

میری سانسیں خریدوگے؟
مجھے کچھ اور جینا ہے۔

ایک مدت سے کہیں گم ہے میرا نصف وجود ایک مدت سے میری نیند جدا، خواب جدا

ایک مدت سے کہیں گم ہے میرا نصف وجود 
ایک  مدت  سے  میری  نیند  جدا، خواب جدا

*نقشِ محمد ﷺ مٹا سکوگے نہ تم*

*نقشِ محمد ﷺ مٹا سکوگے نہ تم* ہزار بار بھی ابلیس قادیاں سے اٹھے دلوں سے نقش محمد ﷺ مٹا سکو گے نہ تم کبھی جو ساز فرنگی پہ تم نے گایا تھا ! و...